Showing posts from May, 2019Show all
ہم سے کہتے ہیں چمن والے غریبان چمن
نہ جانے کس لئے امیدوار بیٹھا ہوں
میں خود یہ چاہتا ہوں کہ حالات ہوں خراب
مخلوق خدا جب کسی مشکل میں پڑی ہو
گماں تجھ کو کہ رستہ کٹ رہا ہے
گُلوں میں رنگ بھرے بادِ نوبہار چلے
کس نے ذکر کر دیا میرا
علاج یہ ہے کہ مجبور کر دیا جاؤں
عاشقی میں میر جیسے خواب مت دیکھا کرو
مدتیں ہو گئی خطا کرتے
وہ ”بچھڑا ” تو پھر کبھی صبح نہ ہوئی
دشمنوں تم کو خوف کس کا ہے
درد اتنا ہے ہر رگ میں ہے محشر برپا
چھوڑ اس بات کو اے دوست کہ تجھ سے پہلے
آواز میں ٹھہراؤ تھا آنکھوں میں نمی تھی
اک نام کیا لکھا تیرا ساحل کی ریت پر
اقرار میں کہاں ہے انکار کی سی صورت
آپ کی یاد آتی رہی رات بھر
اب دیکھ لے کہ سینہ بھی تازا ہوا ہے چاک
ہم بھی گھر سے منیر تب نکلے
مشکل ہوا ہے رہنا ہمیں اس دیار میں
مدت کے بعد آج اسے دیکھ کر منیر
غمِ خاص پر کبھی چپ رہے
خیال جس کا تھا مجھے خیال میں ملا مجھے
اس آخری نظر میں عجب درد تھا منیر