Showing posts from January, 2019Show all
آپ پہلو میں جو بیٹھیں ، تو سنھبل کر بیٹھیں
آپ دولت کے ترازو میں محبت کو تولیں
آدمی جان بوجھ کے کھاتا ہے محبت میں فریب
عادت ہی بنا لی ہے تم نے تو منیر اپنی
حدود وقت سے باہر عجب حصار میں ہوں
شاید مجھے کسی سے محبت نہیں ہوئی
اتنے گھنے بادل کے پیچھے
آئے بھی لوگ ، بیٹھے بھی اٹھ بھی کھڑے ہوئے
رہتے تھے جن کے دل میں ہم جان سے بھی پیاروں کی طرح
کسی بھی شہر میں جاؤ کہیں قیام کرو
نظر نظر میں لیے تیرا پیار پھرتے ہیں
بس اک شعاع نور سے سایہ سمٹ گیا
راحت کہاں نصیب تھی جو اب کہیں نہیں
عشق ہی عشق ہو عاشق ہو نہ معشوق جہاں
ہر ایک گھر میں دیا بھی جلے اناج بھی ہو
دیکھ کر دلکشی زمانے کی
جانے قلم کی آنکھ میں کس کا ظہور تھا
میری آنکھوں سے گزر کر دل و جاں میں آنا
تو منزل نہیں تھی جس کا سفر کیا
اپنے ماحول سے تھے قیس کے رشتے کیا کیا
آپ کی یاد آتی رہی رات بھر
گرمیٔ حسرت ناکام سے جل جاتے ہیں
ہم نے ہی لوٹنے کا ارادہ نہیں کیا
گفتگو اچھی لگی ذوق نظر اچھا لگا
ہے یاد مجھے نکتۂ سلمان خوش آہنگ
کچھ کہوں، کچھ سنوں، ذرا ٹھہرو
مزاج ہم سے زیادہ جدا نہ تھا اس کا
جتنی دعائیں آتی تھیں
درد بھرے اشعار
ان کو عہد شباب میں دیکھا چاندنی کو شراب میں دیکھا
آنکھیں